[color=red]
ابن صفی
1950ء کی بات ہے محفل شباب پر تھی، موضوع تھا کہ اردو ادب میں آج کل کیا کچھ پڑھا جا رہا ہے۔ اس محفل کے روح رواں پانچ دوست تھے۔ اسرار احمد، جمال رضوی، مجاور حسین، آفاق حیدر اور عباس حسینی، مجاور حسین نے کہا۔ "اردو کے سری ادب میں طبع زاد لکھنے والے نہیں ہیں۔ جو کچھ بھی چھپ رہا ہے وہ انگریزی کا ترجمہ ہے۔ اس سلسلہ میں خان محبوب طرزی اور ظفر عمر کا نام پیش کیا جاسکتا ہے۔ ظفر عمر نے مارس لیبلانک کے کردار آرسن لوپن کو نہایت بے ڈھنگے انداز میں بہرام ڈاکو کے نام سے پیش کیا ہے۔"
"میرا بھی یہی خیال ہے۔" اسرار احمد نے کہا۔ "ان ناولوں کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی انگریز سرپر پھندنے والی ٹوپی لگائے چلا آ رہا ہے۔"
ظفر عمر نے بہرام کے چار ناول پیش کئے تھے مگر وہ عوام میں مقبولیت حاصل نہ کر سکے اور اس سلسلے کو بند کر دینا پڑا۔ اس سلسلے کا پہلا ناول "نیلی چھتری" تھا۔
جمال رضوی نے کہا۔ "ناول وہی کامیاب ہو سکتے ہیں جن میں جنسیت ہو۔ ان کے علاوہ تاریخی ناول بھی بک جاتے ہیں۔ اس لئے کہ ان میں ایک سیدھا سادہ بادشاہ، اس کا عیار وزیر اور حسین ملکہ ہوتی ہے۔ وزیر ہر لمحہ اقتدار پر قابض ہونے کے منصوبے بناتا رہتا ہے اور ملکہ پر بھی بری نظر رکھتا ہے۔ ایسے ناولوں کا ماحول عرب اور اس سے ملحقہ ممالک کا ہوتا ہے۔ جن میں شدت سے مساجد، کھجور کے درختوں اور اونٹوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ تاکہ سیدھے سچے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جاسکے۔ ان میں قاری کی دلچسپی کا مسالا کچھ اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ اسے جنس کے ساتھ تاریخ پڑھنے کو مل جاتی ہے۔"
"صحیح کہا جیسے صادق سردھنوی کے ناول جنہیں پڑھ کر سوائے سردھننے کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔" جمال رضوی بولے۔
"مگر مجھے اختلاف ہے۔ اگر ناولوں میں زبان دلچسپ اور پلاٹ جان دار ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسے ناول مارکیٹ نہ بناسکیں اور عوام میں مقبولیت حاصل نہ کر سکیں۔" اسرار احمد نے کہا۔
"ویسے اگر سیکسیٹن بلیک سیریز کی طرز پر اردو میں ایک جاسوسی ماہنامہ نکالا جائے تو کامیاب ہو سکتا ہے۔" عباس حسینی نے خیال پیش کیا۔
دوستوں کا خیال تھا کہ راہی معصوم رضا چونکہ گارڈنر، ایڈگرویلس اور اگا تھا کرسٹی کو دوسرے شرکاء کی بہ نسبت زیادہ پڑھ چکے ہیں، لہٰذا وہ بہت اچھی جاسوسی کہانی لکھ سکتے ہیں، لیکن مجاور حسین نے راہی کو نظر انداز کر دیا اور وکٹرگن کا ایک ناول "آئرن سائیڈزلون ہینڈ" اسرار احمد کو تھما دیا کہ اسے بنیاد بنا کر ایک کہانی لکھو۔
"میں کوشش کرتا ہوں، لیکن ایک تجربہ کروں گا کہ ناول جنس کے بغیر لکھوں اور اسے کامیاب کر کے دکھاؤں۔" اسرار احمد نے کہا۔
وہ دہریت کے رجحان کو بھی ختم کرنا چاہتے تھے جو اس نسل کے ذہنوں میں کسی ناسور کی طرح پرورش پا رہا تھا۔ اس خیال اور ارادے کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوں نے ایک جاسوسی ناول لکھا۔ اسے پڑھا تو پسند نہیں آیا۔ مجبوراً اس کا مسودہ پھاڑ دیا۔ دوسری بار لکھا۔ مطمئن نہیں ہوئے اور اسے بھی پھاڑ کر ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا۔
چوتھی بار ایک ناول لکھا اور اس کا نام "دلیر مجرم" رکھا یہ مارچ 1952ء میں شائع ہونے والا اردو کا پہلا جاسوسی اوریجنل ناول تھا جس میں انسپکٹر احمد کمال فریدی اور سارجنٹ ساجد حمید کے کرداروں کو کچھ اس انداز سے پیش کیا گیا تھا کہ لوگوں نے اسے پسند کیا۔ اس ناول کے مصنف تھے ابن صفی! یہ اسرار احمد ہی تھے۔ جنہوں نے اپنے والد صفی اللہ کی نسبت سے قلمی نام اختیار کیا تھا۔
ناول مارکیٹ میں آیا اور ایک ہفتے میں الہٰ آباد میں فروخت ہو گیا۔ دوسرا ایڈیشن زیادہ تعداد میں چھاپا گیا اور دوسرے شہروں کو بھی بھیجا گیا۔ وہ بھی تیزی سے بک گیا۔ دور دور سے فرمائشیں آنے لگیں۔ پھر ہر ماہ لوگ جاسوسی دنیا کا انتظار کرنے لگے۔ اس کے بعد شائع ہونے والے ناولوں میں خوفناک جنگل، عورت فروش کا قاتل اور تجوری کا راز شامل تھے۔
1954ء میں جبکہ ان کی عمر صرف چھبیس برس تھی وہ برصغیر ہند و پاک میں اردو پڑھنے والوں کے حواس پر چھا چکے تھے۔ لوگوں کو ان کے ناولوں کا انتظار رہنے لگا تھا۔ ناولوں کی عدم دستیابی پر وہ انہیں بلیک سے خریدنے پر تیار رہتے تھے۔ ابن صفی اٹھائیس برس تک اپنے قلم کا جادو جگاتے رہے اور ان کا کوئی ہم عصر ان جیسی بلندی اورسرفرازی حاصل نہ کر سکا۔ ان کے خیالی کردار زندہ جاوید ہو گئے۔ وہ بلاشبہ اردو کے سری ادب کے بے تاج بادشاہ کہلانے کے مستحق ہیں۔
"کہتے ہیں کہ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو ان کے ناول بہت پسند تھے اور اپنے جاننے والوں سے ابن صفی کے نئے ناول کے بارے میں استفسار کرتے رہتے تھے۔ نیا ناول شائع ہو چکا ہوتا تو اسے مارکیٹ سے منگواتے اور پڑھنے کے بعد نہایت اہتمام سے ان ناولوں کو اپنی کتابوں کے شیلف میں جگہ دیتے تھے۔ پہلے وہ اگا تھا کرسٹی، پیٹر چینی اور انگریزی کے دوسرے ناول پڑھتے تھے مگر بعد میں انہیں چھوڑ دیا۔ وہ کہا کرتے تھے۔ "ابن صفی مجھے خاص طور پر اس لئے پسند ہے کہ وہ نیک نیتی سے لکھنے والا ہے۔ وہ مجھے اس لئے بھی پسند ہے کہ اس نے اردو ادب کو انگریزی ادب کے برابر لا کھڑا کیا ہے اور کہیں کہیں تو اسکا قد غیر ملکی لکھنے والوں کے مقابلے میں نکلتا محسوس ہوتا ہے۔"
ان کے ناول "پاگل کتے" پر پابندی لگنے والی تھی مگر صدر محمد ایوب خان نے انتظامیہ کو منع کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خود محمد ایوب خان ابن صفی کے ناولوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ )ان کی ایک تصویر اخبار جنگ 1960ء میں شائع ہو چکی ہے جس میں وہ ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا مطالعہ کر رہے ہیں۔(
ابن صفی کے جدِّ امجد راجا و شیشر دیال سنگھ تھے جو قبول اسلام کے بعد بابا عبدالنبی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کا مزار اب بھی مرجع خلائق ہے ابن سعید کہتے ہیں کہ جب بھی اس موضوع پر اسرار احمد سے بات ہوتی تو وہ بڑے فخر سے کہتے کہ تم لوگ اتفاقی مسلمان ہو جب کہ ہم اختیاری مسلمان ہیں۔
ہمارے آباء و اجداد نے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا ہے۔ اپنی پیدائش کا واقعہ اسرار احمد ) ابن صفی ( خودیوں بیان کرتے ہیں۔ جولائی 1928ء کی کوئی تاریخ تھی اور جمعہ کی شام دھند لکوں میں تحلیل ہو رہی تھی کہ میں نے اپنے رونے کی آواز سنی۔ ویسے دوسروں سے سنا کہ میں اتنا نحیف تھا کہ رونے کے لیے منہ تو کھول لیتا تھا۔ لیکن آواز نکالنے پر قادر نہیں تھا۔ میرا خیال ہے کہ دوسروں کو میری آواز اب بھی سنائی نہیں دیتی۔ کب سے حلق پھاڑ رہا ہوں۔ وہ حیرت سے میری طرف دیکھتے ہیں اور لا تعلقی سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ خیر کبھی تو۔۔۔ افوہ پتا نہیں کیوں اپنی پیدائش کے تذکرے پر میں اتنا جذباتی ہو جاتا ہوں۔
ڈبو یا مجھ کو ہونے نے، نہ ہو تا میں تو کیا ہو تا
جب بھی یہ مصرعہ ذہن میں گونجتا ہے ایک بھاری سی آواز اس پر حاوی ہو جاتی ہے۔ "میاں کس کھیت کی مولی ہو؟ تم نہ ہو تے تب بھی اردو کو سری ادب کے اس دور سے گزر نا پڑتا۔ 1947ء کے فسادات کے بعد خواب دیکھنے والا کوئی مسلمان ایک کرنل فرید ی ضرور پیدا کرتا۔ کرنل فریدی جو ساری دنیا پر قانون کی حکمرانی کا خواہاں ہے۔" میں اس آواز کے جواب میں کہتا ہوں۔ "اونہہ! فریدی ذہنیت کا ایک نمونہ میں نے بھی پیدا کیا ہے۔ مجھے اس کا اعتراف ہے، لیکن دنیا میں زیادہ تر یہی ہو تا رہا ہے۔ ہوائی قلعوں نے ہی اکثر ٹھوس حقائق کی طرف رہنمائی کی ہے۔"
اسرار احمد کے والد صفی اللہ بھی ملازمت پیشہ تھے۔ اسرار احمد کی بہن ریحانہ لطیف لکھتی ہیں۔ "والد صاحب ملازمت کے سلسلے میں کبھی ایک جگہ جم کر نہ رہ سکے۔ یہ اماں ہی کی محبت تھی کہ انہوں نے بھائی جان کی تعلیم کا بیڑا اٹھا یا اور تنہا ماں اور باپ کے فرائض انجام دیے۔ ہم تین بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ ایک بہن جن کا نام خورشید تھا۔ بھائی جان سے بڑی تھیں۔ دو بہنیں غفیرہ اور میں بھائی جان سے چھوٹی تھیں۔ ہم سب بھائی بہنوں میں بڑی محبت تھی۔ اگر کسی کو معمولی سی تکلیف ہو تی تو سب اس تکلیف کو اپنے اوپر محسوس کر تے۔ یہ ہماری والدہ کی اچھی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ہم آپس میں اس قدر متحدو متفق تھے کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے تھے۔"
اسرار احمد نے ابتدائی تعلیم مجید یہ اسلامیہ ہائی اسکول سے حاصل کی۔ میٹرک کیا۔ نصابی کتابوں کے علاوہ جو پہلی کتاب ان کے ہاتھ لگی وہ "طلسم ہو شربا" کی پہلی جلد تھی۔ حالانکہ اس کی زبان کو سمجھنا ایک آٹھ سالہ بچّے کے لیے کاردار د تھا۔ تاہم کہانی تو ان کی سمجھ میں آ ہی گئی۔ پھر پے درپے طلسم ہو شربا کی ساتوں جلدیں ختم کر ڈالیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ "طلسم ہو شربا" نے ان کے دماغ پر قبضہ جما لیا۔
وہ گھنٹوں طلسم ہو شربا کے کرداروں کے بارے میں سوچتے رہتے۔ خواجہ عمرو کے شاگرد مہتر برق فرنگی ان کے پسندیدہ کردار تھے۔ وہ یہ بھی سوچتے تھے کہ کاش ملکہ براں شمشیر زن شہزادہ ایرج کے بجائے ان پر عاشق ہو تی۔
انہوں نے جہاں آنکھ کھولی وہ ایک بھرا پرا قصبہ تھا۔ وہ خوشحال جاگیرداروں کی بستی "نارا" تھی۔ ہر طرف فرصت ہی فرصت تھی۔ تاش، شطرنج اور بازیاں جمتیں۔ سیرو شکار سے جی بہلا یا جاتا۔ جب کہ بعض گھرانے ایسے بھی تھے جہاں علم و ادب کے چرچے تھے۔
ان کی والدہ کو مطالعے سے دلچسپی تھی، لہٰذا گھر میں قدیم داستانوں اور ناولوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ مگر اسرار احمد کو اس کی اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی کتاب کو ہاتھ لگائیں۔ ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ کوئی کتاب اٹھا تے اور ظاہر کرتے کہ کھیلنے کے لیے باہر جا رہے ہیں۔ لیکن چھت پر پہنچ جاتے اور صبح سے شام تک کتابیں پڑھتے رہتے۔ سارا دن اسی چکر میں گزر جاتا۔ بہرحال ایک دن پکڑے گئے۔ لیکن فیصلہ انہی کے حق میں ہوا۔ ان کی والدہ نے ان کی حمایت کرتے ہوئے کہا۔ "میرا بیٹا ان لڑکوں سے تو بہتر ہے جو دن بھر گلی کوچوں میں گلی ڈنڈا کھیلتے ہیں۔"
اس کے بعد کوئی روک ٹوک نہ رہی اور انہوں نے داستانوں کی داستانیں چاٹ ڈالیں۔
ڈی اے وی اسکول جہاں سے انہوں نے میٹرک کیا تھا شہر میں تھا۔ شہر جانے سے داستانوں کے مطالعے کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ کیونکہ کتابیں تو گھر میں رہ گئی تھیں۔ جب اسکول سے واپس آتے تو بڑی الجھن اور دشواری میں مبتلا رہتے۔ وہ ہوائی قلعے بنانے لگتے اور خود کو طلسم ہو شربا کی حدود میں پاتے۔ کسی مظلوم جادو گرنی کے لیے کارنامہ انجام دے کر اس کی آنکھوں کا تارا بن جاتے۔ اس کے بعد انعام کے طور پر پورا مطبع اور کتب خانہ منشی نول کشور منگوا لیتے۔ وہ سوچتے کہ شہر تو بہ واہیات جگہ ہے، اگر پیسے نہ ہوتے تو وہ مطالعے سے بھی محروم رہ جاتے۔
ایک روز انہیں اپنے ہم جماعت کے گھر میں دو کتابیں دکھائی دیں۔ جن کا نام تھا "عذرا" اور "عذرا" کی واپسی وہ دونوں کتابیں انہوں نے دوست کی اجازت سے وہیں بیٹھ کر پڑھ لیں۔ اب وہ بالکل نئے قسم کے خوابوں میں مگن رہتے انہیں۔ عذرا ملتی۔ وہ ان کا نام پوچھتی۔ وہ بتا تے کہ ان کا نام اسرار ناروی ہے۔
وہ ٹھنڈی سانس لیتی اور کہتی کہ نہیں تمہارا نام قلقراطیس ہے۔ میرے محبوب۔۔۔ ہم نے ہزاروں سال پہلے ایک دوسرے کو چاہا تھا۔ میں غیر فانی تھی جب کہ تم مر گئے تھے۔ تم نے پتا نہیں کہاں کہاں اور کس کس دور میں جنم لیا اور میں بھی تمہیں تلاش کرتی رہی۔ اب جا کر الٰہ آباد میں ملے ہو۔ کیا عمر ہے تمہاری؟
وہ جواب دیتے "دس سال، خیر۔وہ پہلے سے زیادہ ٹھنڈی سانس لے کر کہتی۔ کوئی بات نہیں میں دس سال اور انتظار کر لوں گی۔ "
اس طرح رائیڈر ہیگرڈ جوان ناولوں کے اصل مصنف کے کچے ذہن پر قبضہ جما لیا اور اس کے ساتھ طلسم ہو شربا کے آمیز ے نے ان کی ذہنی حالت نہایت عجیب سی کر دی۔ وہ دن میں بھی خواب دیکھنے لگے۔ بہرحال خواب اور مطالعے کا سلسلہ جاری رہا۔
اسرار و تجسس غالباً ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ جن دنوں وہ پانچویں جماعت میں تھے۔ ایک لڑکے سلیم نے استاد سے شکایت کی کہ راجیش نے اس کی انگریزی کی بالکل نئی کتاب لا کر اپنے بستے میں رکھ لی ہے۔ استاد نے راجیش کو حکم دیا کہ وہ اپنا بستہ کھول کر دکھائے۔ اس نے اپنا بستہ کھولا تو انگریزی کی کتاب اس میں مل گئی۔ سلیم نے اپنی کتاب پہچان لی اور استاد کو بتا یا۔
استاد نے راجیش کو حکم دیا کہ انگریزی کی وہ کتاب سلیم کو دے دی جائے، اس پر راجیش نے واویلا مچا دیا کہ یہ تو اسی کی ہے۔ اس کے پتا جی نے کل ہی خرید کر دی ہے۔ اب استاد کے لیے یہ فیصلہ کر نا دشوار تھا کہ کتاب کس کی ہے۔ اس لیے کہ کتاب بالکل نئی تھی اور اس پر کسی کا نام نہیں لکھا تھا۔
انہوں نے راجیش کو کتاب دے دی اور سلیم سے کہا کہ یہ اس کی کتاب نہیں ہے وہ اسے کہیں اور تلاش کرے۔ سلیم منمناتا ہوا اپنی سیٹ پر بیٹھنے جا رہا تھا کہ اسرار احمد نے استاد سے کہا۔ "ٹھہرئیے سر! یہ کتاب سلیم کی ہے، لہٰذا اسے دے دیجئے۔"
"تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ کتاب سلیم کی ہے؟"
اسرار احمد نے کہا "کتا ب پر چڑھے ہوئے اردو اخبار کی وجہ سے۔"
استاد نے حیرت سے پوچھا۔ "اس میں کیا خاص بات ہے؟"
اسرار احمد نے جواب دیا۔ "اردو اخبار کو ہندو گھرانے ہاتھ لگا نا بھی پسند نہیں کرتے اور ان کے گھروں میں ان کا داخلہ بند ہے تو پھر اس کتاب پر اردو اخبار کیسے چڑھا ہوا ہے؟ سلیم نے کتاب خریدی، اس پر اخبار کا کور چڑھا یا لیکن کتاب پر اپنا نام لکھنا بھول گیا۔"
استاد نے یہ دلیل سن کر راجیش کو سرزنش کی تو وہ رونے لگا اور اس نے اقرار کر لیا کہ حقیقت میں کتاب سلیم ہی کی ہے۔ اسرار احمد کی فہم و دانش اور سراغرسانی کی دھوم مچ گئی اور انہیں جاسوس کہا جانے لگا۔
وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں بہت شرارتی تھے۔ ان کی عمران سیریز میں مزاح کی اکثر سچویشن کا اس زمانے سے گہرا تعلق ہے۔ عمران میں ان کے کردار کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بار انہیں سائیکل پر کہیں جانا تھا اور سائیکل نہیں مل رہی تھی۔ دفعتاً انہیں سامنے سے ایک باریش شخص سائیکل پر آتا دکھائی دیا۔ انہوں نے ہاتھ ہلا کر کہا۔ "شرم نہیں آتی، داڑھی رکھ کر سائیکل چلا تے ہو۔"
وہ آدمی غصے سے لال بھبوکا ہو گیا اور سائیکل سے اتر پڑا اور انہیں مارنے کی نیت سے پتھر تلاش کر نے لگا۔ اپنی سائیکل اس نے ایک درخت سے ٹکا کر کھڑی کر دی۔ اسرار احمد نے دوبارہ بڑے میاں کو چھیڑا۔ وہ اسے پکڑنے دوڑے اس کا فائدہ ان کے ایک دوست نے اٹھا یا سائیکل پکڑی اور وہاں سے بھاگ نکلا۔ کچھ دور جا کر اس نے اسرار احمد کو بٹھا لیا۔ جب کام نکل گیا تو انہوں نے سائیکل وہیں کھڑی کر دی۔
اپنی پہلی کہانی انہوں نے اس وقت لکھی جب وہ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ کہانی کا نام تھا نا کام آرزو۔ اس زمانے میں عادل رشید ایک رسالے "شاہد" کے مدیر تھے۔ ان کے انداز تحریر کو دیکھ کر انہیں گمان ہوا کہ کوئی بزرگ ہیں۔ اس لیے انہوں نے کہانی کے ساتھ کچھ اس قسم کا کیپشن چھا پ دیا۔
"نتیجہ فکر مصور جذبات حضرت اسرار ناروی "وہ کہانی شائع ہو تے ہی گویا مصیبت آ گئی۔ گھر والوں نے ان کی درگت یوں بنائی کہ کسی کو پیاس لگتی تو وہ انہیں یوں آواز دیتا۔ " ابے او مصور جذبات، ذرا ایک گلاس پانی تو پلانا۔"
اس کے بعد گاہے گاہے ان کی کہانیاں ہفت روزہ "شاہد" میں شائع ہو تی رہیں۔ ان میں زیادہ تعداد رومانی کہانیوں کی ہو تی تھی۔ پھر آٹھویں اور نویں تک پہنچتے پہنچتے انہیں شاعری کا چسکا لگ گیا۔ یوں رومانویت اور داستان گوئی پیچھے رہ گئی۔
ابتدا میں انہوں نے اپنے ماموں جناب نوح ناروی سے اصلاح لی، اس کے بعد ہائی اسکول میں اپنے اردو کے استاد مولانا محمد متین شمس سے رجوع کیا۔ اس کے بعد فراق گورکھ پوری، سلامؔ مچھلی کی شہری اور وامق جونپوری کے سامنے بیٹھ کر نظمیں سنا نے لگے۔ اس زمانے کے لحاظ سے یہ بڑی بات تھی کیونکہ فراق بہرحال ایک معتبر شاعر تھے۔
دوسرے شاعروں کی طرح اس کے حواس پربھی جگر مراد آبادی چھائے ہوئے تھے لہٰذا انہوں نے خمریات پر طبع آزمائی شروع کر دی۔ اس کا سلسلہ اتنے زور و شور سے ہوا کہ بعض اوقات ان کے قریبی شناساؤں کو شبہ ہونے لگتا کہ انہوں نے سچ مچ پینا تو شروع نہیں کر دیا؟ مثلاً:
ہمیں تو ہے مئے گل رنگ رخاں سے غرض
بنائے کفر پڑی کس طرح خدا جانے
بس اتنا یاد ہے اسرار وقت مئے نوشی
کسی کی یاد بھی آئی تھی مجھ کو سمجھانے
میٹرک میں پہنچتے ہی وہ بے بی کمیو نسٹوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگے۔ وہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے پارٹی آفس کی شکل تک نہیں دیکھی تھی ایسے تمام کمیونسٹوں کا پہنا وا کھدر ہو تا تھا۔ اور وہ کسی چور بازار سے گول شیشوں والی عینک خرید لاتے تھے۔
کمیو نسٹ کہلائے جانے کے شوق میں اچھی بھلی بینائی کا ستیاناس مار دیتے۔ نہ معلوم ان کے نزدیک کمیونسٹ کے لیے نظر کی عینک پہننا کیوں ضروری ہو گیا تھا ؟ اس علاوہ ترقی پسند سر کے بال بڑھا نا بھی ضروری سمجھتے تھے۔
اسرارا حمد اس بارے میں کہتے ہیں۔ "ان کمیونسٹوں کا ساتھ ہو تے ہی ظالم سماج اور سرمایہ داری میری شاعری میں گھس آئے۔ ان دنوں میں محلے کے بنیے کو سرمایہ دار سمجھتا تھا اور اپنی برادری والوں کو ظالم سماج، اس لیے کہ برادری سے باہر شادی کرنے پر پابندی عائد تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے ہی خاندان کے کچھ بزرگ سماج کے ٹھیکے دار ٹھہرے۔ میں دل ہی دل میں ان پر غرا کر شاعری کیا کرتا اور جب محلے کا بنیا کسی قرض خواہ سے الجھ پڑتا تو سر مایہ داری کی شامت آ جاتی ایسی دل ہلا دینے والی نظم لکھتا کہ بعد میں اس بنیے پر رحم آنے لگتا۔
دوسری عالمی جنگ شباب پر تھی اور میں اس الجھن میں پڑا رہتا کہ آخر عالمی امن کا داعی روس کیوں نازی جرمنی کا ساتھ دے رہا ہے؟ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ روس اور جرمنی بھی ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے میرے کھدر پوش ساتھیوں نے ہٹلر کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔
میں نے چپ چاپ اپنا کھدر کا لباس اتارا، بال ترشوائے اور آدمی کی جون می
ابن صفی
1950ء کی بات ہے محفل شباب پر تھی، موضوع تھا کہ اردو ادب میں آج کل کیا کچھ پڑھا جا رہا ہے۔ اس محفل کے روح رواں پانچ دوست تھے۔ اسرار احمد، جمال رضوی، مجاور حسین، آفاق حیدر اور عباس حسینی، مجاور حسین نے کہا۔ "اردو کے سری ادب میں طبع زاد لکھنے والے نہیں ہیں۔ جو کچھ بھی چھپ رہا ہے وہ انگریزی کا ترجمہ ہے۔ اس سلسلہ میں خان محبوب طرزی اور ظفر عمر کا نام پیش کیا جاسکتا ہے۔ ظفر عمر نے مارس لیبلانک کے کردار آرسن لوپن کو نہایت بے ڈھنگے انداز میں بہرام ڈاکو کے نام سے پیش کیا ہے۔"
"میرا بھی یہی خیال ہے۔" اسرار احمد نے کہا۔ "ان ناولوں کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی انگریز سرپر پھندنے والی ٹوپی لگائے چلا آ رہا ہے۔"
ظفر عمر نے بہرام کے چار ناول پیش کئے تھے مگر وہ عوام میں مقبولیت حاصل نہ کر سکے اور اس سلسلے کو بند کر دینا پڑا۔ اس سلسلے کا پہلا ناول "نیلی چھتری" تھا۔
جمال رضوی نے کہا۔ "ناول وہی کامیاب ہو سکتے ہیں جن میں جنسیت ہو۔ ان کے علاوہ تاریخی ناول بھی بک جاتے ہیں۔ اس لئے کہ ان میں ایک سیدھا سادہ بادشاہ، اس کا عیار وزیر اور حسین ملکہ ہوتی ہے۔ وزیر ہر لمحہ اقتدار پر قابض ہونے کے منصوبے بناتا رہتا ہے اور ملکہ پر بھی بری نظر رکھتا ہے۔ ایسے ناولوں کا ماحول عرب اور اس سے ملحقہ ممالک کا ہوتا ہے۔ جن میں شدت سے مساجد، کھجور کے درختوں اور اونٹوں کا تذکرہ ہوتا ہے۔ تاکہ سیدھے سچے مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا جاسکے۔ ان میں قاری کی دلچسپی کا مسالا کچھ اس انداز سے پیش کیا جاتا ہے کہ اسے جنس کے ساتھ تاریخ پڑھنے کو مل جاتی ہے۔"
"صحیح کہا جیسے صادق سردھنوی کے ناول جنہیں پڑھ کر سوائے سردھننے کے اور کچھ نہیں کیا جاسکتا۔" جمال رضوی بولے۔
"مگر مجھے اختلاف ہے۔ اگر ناولوں میں زبان دلچسپ اور پلاٹ جان دار ہو تو کوئی وجہ نہیں کہ ایسے ناول مارکیٹ نہ بناسکیں اور عوام میں مقبولیت حاصل نہ کر سکیں۔" اسرار احمد نے کہا۔
"ویسے اگر سیکسیٹن بلیک سیریز کی طرز پر اردو میں ایک جاسوسی ماہنامہ نکالا جائے تو کامیاب ہو سکتا ہے۔" عباس حسینی نے خیال پیش کیا۔
دوستوں کا خیال تھا کہ راہی معصوم رضا چونکہ گارڈنر، ایڈگرویلس اور اگا تھا کرسٹی کو دوسرے شرکاء کی بہ نسبت زیادہ پڑھ چکے ہیں، لہٰذا وہ بہت اچھی جاسوسی کہانی لکھ سکتے ہیں، لیکن مجاور حسین نے راہی کو نظر انداز کر دیا اور وکٹرگن کا ایک ناول "آئرن سائیڈزلون ہینڈ" اسرار احمد کو تھما دیا کہ اسے بنیاد بنا کر ایک کہانی لکھو۔
"میں کوشش کرتا ہوں، لیکن ایک تجربہ کروں گا کہ ناول جنس کے بغیر لکھوں اور اسے کامیاب کر کے دکھاؤں۔" اسرار احمد نے کہا۔
وہ دہریت کے رجحان کو بھی ختم کرنا چاہتے تھے جو اس نسل کے ذہنوں میں کسی ناسور کی طرح پرورش پا رہا تھا۔ اس خیال اور ارادے کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہوں نے ایک جاسوسی ناول لکھا۔ اسے پڑھا تو پسند نہیں آیا۔ مجبوراً اس کا مسودہ پھاڑ دیا۔ دوسری بار لکھا۔ مطمئن نہیں ہوئے اور اسے بھی پھاڑ کر ردی کی ٹوکری کی نذر کر دیا۔
چوتھی بار ایک ناول لکھا اور اس کا نام "دلیر مجرم" رکھا یہ مارچ 1952ء میں شائع ہونے والا اردو کا پہلا جاسوسی اوریجنل ناول تھا جس میں انسپکٹر احمد کمال فریدی اور سارجنٹ ساجد حمید کے کرداروں کو کچھ اس انداز سے پیش کیا گیا تھا کہ لوگوں نے اسے پسند کیا۔ اس ناول کے مصنف تھے ابن صفی! یہ اسرار احمد ہی تھے۔ جنہوں نے اپنے والد صفی اللہ کی نسبت سے قلمی نام اختیار کیا تھا۔
ناول مارکیٹ میں آیا اور ایک ہفتے میں الہٰ آباد میں فروخت ہو گیا۔ دوسرا ایڈیشن زیادہ تعداد میں چھاپا گیا اور دوسرے شہروں کو بھی بھیجا گیا۔ وہ بھی تیزی سے بک گیا۔ دور دور سے فرمائشیں آنے لگیں۔ پھر ہر ماہ لوگ جاسوسی دنیا کا انتظار کرنے لگے۔ اس کے بعد شائع ہونے والے ناولوں میں خوفناک جنگل، عورت فروش کا قاتل اور تجوری کا راز شامل تھے۔
1954ء میں جبکہ ان کی عمر صرف چھبیس برس تھی وہ برصغیر ہند و پاک میں اردو پڑھنے والوں کے حواس پر چھا چکے تھے۔ لوگوں کو ان کے ناولوں کا انتظار رہنے لگا تھا۔ ناولوں کی عدم دستیابی پر وہ انہیں بلیک سے خریدنے پر تیار رہتے تھے۔ ابن صفی اٹھائیس برس تک اپنے قلم کا جادو جگاتے رہے اور ان کا کوئی ہم عصر ان جیسی بلندی اورسرفرازی حاصل نہ کر سکا۔ ان کے خیالی کردار زندہ جاوید ہو گئے۔ وہ بلاشبہ اردو کے سری ادب کے بے تاج بادشاہ کہلانے کے مستحق ہیں۔
"کہتے ہیں کہ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو ان کے ناول بہت پسند تھے اور اپنے جاننے والوں سے ابن صفی کے نئے ناول کے بارے میں استفسار کرتے رہتے تھے۔ نیا ناول شائع ہو چکا ہوتا تو اسے مارکیٹ سے منگواتے اور پڑھنے کے بعد نہایت اہتمام سے ان ناولوں کو اپنی کتابوں کے شیلف میں جگہ دیتے تھے۔ پہلے وہ اگا تھا کرسٹی، پیٹر چینی اور انگریزی کے دوسرے ناول پڑھتے تھے مگر بعد میں انہیں چھوڑ دیا۔ وہ کہا کرتے تھے۔ "ابن صفی مجھے خاص طور پر اس لئے پسند ہے کہ وہ نیک نیتی سے لکھنے والا ہے۔ وہ مجھے اس لئے بھی پسند ہے کہ اس نے اردو ادب کو انگریزی ادب کے برابر لا کھڑا کیا ہے اور کہیں کہیں تو اسکا قد غیر ملکی لکھنے والوں کے مقابلے میں نکلتا محسوس ہوتا ہے۔"
ان کے ناول "پاگل کتے" پر پابندی لگنے والی تھی مگر صدر محمد ایوب خان نے انتظامیہ کو منع کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ خود محمد ایوب خان ابن صفی کے ناولوں کا مطالعہ کرتے تھے۔ )ان کی ایک تصویر اخبار جنگ 1960ء میں شائع ہو چکی ہے جس میں وہ ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا مطالعہ کر رہے ہیں۔(
ابن صفی کے جدِّ امجد راجا و شیشر دیال سنگھ تھے جو قبول اسلام کے بعد بابا عبدالنبی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کا مزار اب بھی مرجع خلائق ہے ابن سعید کہتے ہیں کہ جب بھی اس موضوع پر اسرار احمد سے بات ہوتی تو وہ بڑے فخر سے کہتے کہ تم لوگ اتفاقی مسلمان ہو جب کہ ہم اختیاری مسلمان ہیں۔
ہمارے آباء و اجداد نے سوچ سمجھ کر اسلام قبول کیا ہے۔ اپنی پیدائش کا واقعہ اسرار احمد ) ابن صفی ( خودیوں بیان کرتے ہیں۔ جولائی 1928ء کی کوئی تاریخ تھی اور جمعہ کی شام دھند لکوں میں تحلیل ہو رہی تھی کہ میں نے اپنے رونے کی آواز سنی۔ ویسے دوسروں سے سنا کہ میں اتنا نحیف تھا کہ رونے کے لیے منہ تو کھول لیتا تھا۔ لیکن آواز نکالنے پر قادر نہیں تھا۔ میرا خیال ہے کہ دوسروں کو میری آواز اب بھی سنائی نہیں دیتی۔ کب سے حلق پھاڑ رہا ہوں۔ وہ حیرت سے میری طرف دیکھتے ہیں اور لا تعلقی سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ خیر کبھی تو۔۔۔ افوہ پتا نہیں کیوں اپنی پیدائش کے تذکرے پر میں اتنا جذباتی ہو جاتا ہوں۔
ڈبو یا مجھ کو ہونے نے، نہ ہو تا میں تو کیا ہو تا
جب بھی یہ مصرعہ ذہن میں گونجتا ہے ایک بھاری سی آواز اس پر حاوی ہو جاتی ہے۔ "میاں کس کھیت کی مولی ہو؟ تم نہ ہو تے تب بھی اردو کو سری ادب کے اس دور سے گزر نا پڑتا۔ 1947ء کے فسادات کے بعد خواب دیکھنے والا کوئی مسلمان ایک کرنل فرید ی ضرور پیدا کرتا۔ کرنل فریدی جو ساری دنیا پر قانون کی حکمرانی کا خواہاں ہے۔" میں اس آواز کے جواب میں کہتا ہوں۔ "اونہہ! فریدی ذہنیت کا ایک نمونہ میں نے بھی پیدا کیا ہے۔ مجھے اس کا اعتراف ہے، لیکن دنیا میں زیادہ تر یہی ہو تا رہا ہے۔ ہوائی قلعوں نے ہی اکثر ٹھوس حقائق کی طرف رہنمائی کی ہے۔"
اسرار احمد کے والد صفی اللہ بھی ملازمت پیشہ تھے۔ اسرار احمد کی بہن ریحانہ لطیف لکھتی ہیں۔ "والد صاحب ملازمت کے سلسلے میں کبھی ایک جگہ جم کر نہ رہ سکے۔ یہ اماں ہی کی محبت تھی کہ انہوں نے بھائی جان کی تعلیم کا بیڑا اٹھا یا اور تنہا ماں اور باپ کے فرائض انجام دیے۔ ہم تین بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ ایک بہن جن کا نام خورشید تھا۔ بھائی جان سے بڑی تھیں۔ دو بہنیں غفیرہ اور میں بھائی جان سے چھوٹی تھیں۔ ہم سب بھائی بہنوں میں بڑی محبت تھی۔ اگر کسی کو معمولی سی تکلیف ہو تی تو سب اس تکلیف کو اپنے اوپر محسوس کر تے۔ یہ ہماری والدہ کی اچھی تربیت کا نتیجہ تھا کہ ہم آپس میں اس قدر متحدو متفق تھے کہ دیکھنے والے حیران رہ جاتے تھے۔"
اسرار احمد نے ابتدائی تعلیم مجید یہ اسلامیہ ہائی اسکول سے حاصل کی۔ میٹرک کیا۔ نصابی کتابوں کے علاوہ جو پہلی کتاب ان کے ہاتھ لگی وہ "طلسم ہو شربا" کی پہلی جلد تھی۔ حالانکہ اس کی زبان کو سمجھنا ایک آٹھ سالہ بچّے کے لیے کاردار د تھا۔ تاہم کہانی تو ان کی سمجھ میں آ ہی گئی۔ پھر پے درپے طلسم ہو شربا کی ساتوں جلدیں ختم کر ڈالیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ "طلسم ہو شربا" نے ان کے دماغ پر قبضہ جما لیا۔
وہ گھنٹوں طلسم ہو شربا کے کرداروں کے بارے میں سوچتے رہتے۔ خواجہ عمرو کے شاگرد مہتر برق فرنگی ان کے پسندیدہ کردار تھے۔ وہ یہ بھی سوچتے تھے کہ کاش ملکہ براں شمشیر زن شہزادہ ایرج کے بجائے ان پر عاشق ہو تی۔
انہوں نے جہاں آنکھ کھولی وہ ایک بھرا پرا قصبہ تھا۔ وہ خوشحال جاگیرداروں کی بستی "نارا" تھی۔ ہر طرف فرصت ہی فرصت تھی۔ تاش، شطرنج اور بازیاں جمتیں۔ سیرو شکار سے جی بہلا یا جاتا۔ جب کہ بعض گھرانے ایسے بھی تھے جہاں علم و ادب کے چرچے تھے۔
ان کی والدہ کو مطالعے سے دلچسپی تھی، لہٰذا گھر میں قدیم داستانوں اور ناولوں کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ مگر اسرار احمد کو اس کی اجازت نہیں تھی کہ وہ کسی کتاب کو ہاتھ لگائیں۔ ان کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ کوئی کتاب اٹھا تے اور ظاہر کرتے کہ کھیلنے کے لیے باہر جا رہے ہیں۔ لیکن چھت پر پہنچ جاتے اور صبح سے شام تک کتابیں پڑھتے رہتے۔ سارا دن اسی چکر میں گزر جاتا۔ بہرحال ایک دن پکڑے گئے۔ لیکن فیصلہ انہی کے حق میں ہوا۔ ان کی والدہ نے ان کی حمایت کرتے ہوئے کہا۔ "میرا بیٹا ان لڑکوں سے تو بہتر ہے جو دن بھر گلی کوچوں میں گلی ڈنڈا کھیلتے ہیں۔"
اس کے بعد کوئی روک ٹوک نہ رہی اور انہوں نے داستانوں کی داستانیں چاٹ ڈالیں۔
ڈی اے وی اسکول جہاں سے انہوں نے میٹرک کیا تھا شہر میں تھا۔ شہر جانے سے داستانوں کے مطالعے کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ کیونکہ کتابیں تو گھر میں رہ گئی تھیں۔ جب اسکول سے واپس آتے تو بڑی الجھن اور دشواری میں مبتلا رہتے۔ وہ ہوائی قلعے بنانے لگتے اور خود کو طلسم ہو شربا کی حدود میں پاتے۔ کسی مظلوم جادو گرنی کے لیے کارنامہ انجام دے کر اس کی آنکھوں کا تارا بن جاتے۔ اس کے بعد انعام کے طور پر پورا مطبع اور کتب خانہ منشی نول کشور منگوا لیتے۔ وہ سوچتے کہ شہر تو بہ واہیات جگہ ہے، اگر پیسے نہ ہوتے تو وہ مطالعے سے بھی محروم رہ جاتے۔
ایک روز انہیں اپنے ہم جماعت کے گھر میں دو کتابیں دکھائی دیں۔ جن کا نام تھا "عذرا" اور "عذرا" کی واپسی وہ دونوں کتابیں انہوں نے دوست کی اجازت سے وہیں بیٹھ کر پڑھ لیں۔ اب وہ بالکل نئے قسم کے خوابوں میں مگن رہتے انہیں۔ عذرا ملتی۔ وہ ان کا نام پوچھتی۔ وہ بتا تے کہ ان کا نام اسرار ناروی ہے۔
وہ ٹھنڈی سانس لیتی اور کہتی کہ نہیں تمہارا نام قلقراطیس ہے۔ میرے محبوب۔۔۔ ہم نے ہزاروں سال پہلے ایک دوسرے کو چاہا تھا۔ میں غیر فانی تھی جب کہ تم مر گئے تھے۔ تم نے پتا نہیں کہاں کہاں اور کس کس دور میں جنم لیا اور میں بھی تمہیں تلاش کرتی رہی۔ اب جا کر الٰہ آباد میں ملے ہو۔ کیا عمر ہے تمہاری؟
وہ جواب دیتے "دس سال، خیر۔وہ پہلے سے زیادہ ٹھنڈی سانس لے کر کہتی۔ کوئی بات نہیں میں دس سال اور انتظار کر لوں گی۔ "
اس طرح رائیڈر ہیگرڈ جوان ناولوں کے اصل مصنف کے کچے ذہن پر قبضہ جما لیا اور اس کے ساتھ طلسم ہو شربا کے آمیز ے نے ان کی ذہنی حالت نہایت عجیب سی کر دی۔ وہ دن میں بھی خواب دیکھنے لگے۔ بہرحال خواب اور مطالعے کا سلسلہ جاری رہا۔
اسرار و تجسس غالباً ان کی گھٹی میں پڑا تھا۔ جن دنوں وہ پانچویں جماعت میں تھے۔ ایک لڑکے سلیم نے استاد سے شکایت کی کہ راجیش نے اس کی انگریزی کی بالکل نئی کتاب لا کر اپنے بستے میں رکھ لی ہے۔ استاد نے راجیش کو حکم دیا کہ وہ اپنا بستہ کھول کر دکھائے۔ اس نے اپنا بستہ کھولا تو انگریزی کی کتاب اس میں مل گئی۔ سلیم نے اپنی کتاب پہچان لی اور استاد کو بتا یا۔
استاد نے راجیش کو حکم دیا کہ انگریزی کی وہ کتاب سلیم کو دے دی جائے، اس پر راجیش نے واویلا مچا دیا کہ یہ تو اسی کی ہے۔ اس کے پتا جی نے کل ہی خرید کر دی ہے۔ اب استاد کے لیے یہ فیصلہ کر نا دشوار تھا کہ کتاب کس کی ہے۔ اس لیے کہ کتاب بالکل نئی تھی اور اس پر کسی کا نام نہیں لکھا تھا۔
انہوں نے راجیش کو کتاب دے دی اور سلیم سے کہا کہ یہ اس کی کتاب نہیں ہے وہ اسے کہیں اور تلاش کرے۔ سلیم منمناتا ہوا اپنی سیٹ پر بیٹھنے جا رہا تھا کہ اسرار احمد نے استاد سے کہا۔ "ٹھہرئیے سر! یہ کتاب سلیم کی ہے، لہٰذا اسے دے دیجئے۔"
"تمہارے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ کتاب سلیم کی ہے؟"
اسرار احمد نے کہا "کتا ب پر چڑھے ہوئے اردو اخبار کی وجہ سے۔"
استاد نے حیرت سے پوچھا۔ "اس میں کیا خاص بات ہے؟"
اسرار احمد نے جواب دیا۔ "اردو اخبار کو ہندو گھرانے ہاتھ لگا نا بھی پسند نہیں کرتے اور ان کے گھروں میں ان کا داخلہ بند ہے تو پھر اس کتاب پر اردو اخبار کیسے چڑھا ہوا ہے؟ سلیم نے کتاب خریدی، اس پر اخبار کا کور چڑھا یا لیکن کتاب پر اپنا نام لکھنا بھول گیا۔"
استاد نے یہ دلیل سن کر راجیش کو سرزنش کی تو وہ رونے لگا اور اس نے اقرار کر لیا کہ حقیقت میں کتاب سلیم ہی کی ہے۔ اسرار احمد کی فہم و دانش اور سراغرسانی کی دھوم مچ گئی اور انہیں جاسوس کہا جانے لگا۔
وہ اپنے زمانہ طالب علمی میں بہت شرارتی تھے۔ ان کی عمران سیریز میں مزاح کی اکثر سچویشن کا اس زمانے سے گہرا تعلق ہے۔ عمران میں ان کے کردار کی جھلکیاں دکھائی دیتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک بار انہیں سائیکل پر کہیں جانا تھا اور سائیکل نہیں مل رہی تھی۔ دفعتاً انہیں سامنے سے ایک باریش شخص سائیکل پر آتا دکھائی دیا۔ انہوں نے ہاتھ ہلا کر کہا۔ "شرم نہیں آتی، داڑھی رکھ کر سائیکل چلا تے ہو۔"
وہ آدمی غصے سے لال بھبوکا ہو گیا اور سائیکل سے اتر پڑا اور انہیں مارنے کی نیت سے پتھر تلاش کر نے لگا۔ اپنی سائیکل اس نے ایک درخت سے ٹکا کر کھڑی کر دی۔ اسرار احمد نے دوبارہ بڑے میاں کو چھیڑا۔ وہ اسے پکڑنے دوڑے اس کا فائدہ ان کے ایک دوست نے اٹھا یا سائیکل پکڑی اور وہاں سے بھاگ نکلا۔ کچھ دور جا کر اس نے اسرار احمد کو بٹھا لیا۔ جب کام نکل گیا تو انہوں نے سائیکل وہیں کھڑی کر دی۔
اپنی پہلی کہانی انہوں نے اس وقت لکھی جب وہ ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔ کہانی کا نام تھا نا کام آرزو۔ اس زمانے میں عادل رشید ایک رسالے "شاہد" کے مدیر تھے۔ ان کے انداز تحریر کو دیکھ کر انہیں گمان ہوا کہ کوئی بزرگ ہیں۔ اس لیے انہوں نے کہانی کے ساتھ کچھ اس قسم کا کیپشن چھا پ دیا۔
"نتیجہ فکر مصور جذبات حضرت اسرار ناروی "وہ کہانی شائع ہو تے ہی گویا مصیبت آ گئی۔ گھر والوں نے ان کی درگت یوں بنائی کہ کسی کو پیاس لگتی تو وہ انہیں یوں آواز دیتا۔ " ابے او مصور جذبات، ذرا ایک گلاس پانی تو پلانا۔"
اس کے بعد گاہے گاہے ان کی کہانیاں ہفت روزہ "شاہد" میں شائع ہو تی رہیں۔ ان میں زیادہ تعداد رومانی کہانیوں کی ہو تی تھی۔ پھر آٹھویں اور نویں تک پہنچتے پہنچتے انہیں شاعری کا چسکا لگ گیا۔ یوں رومانویت اور داستان گوئی پیچھے رہ گئی۔
ابتدا میں انہوں نے اپنے ماموں جناب نوح ناروی سے اصلاح لی، اس کے بعد ہائی اسکول میں اپنے اردو کے استاد مولانا محمد متین شمس سے رجوع کیا۔ اس کے بعد فراق گورکھ پوری، سلامؔ مچھلی کی شہری اور وامق جونپوری کے سامنے بیٹھ کر نظمیں سنا نے لگے۔ اس زمانے کے لحاظ سے یہ بڑی بات تھی کیونکہ فراق بہرحال ایک معتبر شاعر تھے۔
دوسرے شاعروں کی طرح اس کے حواس پربھی جگر مراد آبادی چھائے ہوئے تھے لہٰذا انہوں نے خمریات پر طبع آزمائی شروع کر دی۔ اس کا سلسلہ اتنے زور و شور سے ہوا کہ بعض اوقات ان کے قریبی شناساؤں کو شبہ ہونے لگتا کہ انہوں نے سچ مچ پینا تو شروع نہیں کر دیا؟ مثلاً:
ہمیں تو ہے مئے گل رنگ رخاں سے غرض
بنائے کفر پڑی کس طرح خدا جانے
بس اتنا یاد ہے اسرار وقت مئے نوشی
کسی کی یاد بھی آئی تھی مجھ کو سمجھانے
میٹرک میں پہنچتے ہی وہ بے بی کمیو نسٹوں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگے۔ وہ ایسے لوگ تھے جنہوں نے پارٹی آفس کی شکل تک نہیں دیکھی تھی ایسے تمام کمیونسٹوں کا پہنا وا کھدر ہو تا تھا۔ اور وہ کسی چور بازار سے گول شیشوں والی عینک خرید لاتے تھے۔
کمیو نسٹ کہلائے جانے کے شوق میں اچھی بھلی بینائی کا ستیاناس مار دیتے۔ نہ معلوم ان کے نزدیک کمیونسٹ کے لیے نظر کی عینک پہننا کیوں ضروری ہو گیا تھا ؟ اس علاوہ ترقی پسند سر کے بال بڑھا نا بھی ضروری سمجھتے تھے۔
اسرارا حمد اس بارے میں کہتے ہیں۔ "ان کمیونسٹوں کا ساتھ ہو تے ہی ظالم سماج اور سرمایہ داری میری شاعری میں گھس آئے۔ ان دنوں میں محلے کے بنیے کو سرمایہ دار سمجھتا تھا اور اپنی برادری والوں کو ظالم سماج، اس لیے کہ برادری سے باہر شادی کرنے پر پابندی عائد تھی اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے ہی خاندان کے کچھ بزرگ سماج کے ٹھیکے دار ٹھہرے۔ میں دل ہی دل میں ان پر غرا کر شاعری کیا کرتا اور جب محلے کا بنیا کسی قرض خواہ سے الجھ پڑتا تو سر مایہ داری کی شامت آ جاتی ایسی دل ہلا دینے والی نظم لکھتا کہ بعد میں اس بنیے پر رحم آنے لگتا۔
دوسری عالمی جنگ شباب پر تھی اور میں اس الجھن میں پڑا رہتا کہ آخر عالمی امن کا داعی روس کیوں نازی جرمنی کا ساتھ دے رہا ہے؟ پھر ایک دن ایسا ہوا کہ روس اور جرمنی بھی ایک دوسرے پر چڑھ دوڑے میرے کھدر پوش ساتھیوں نے ہٹلر کو گالیاں دینا شروع کر دیں۔
میں نے چپ چاپ اپنا کھدر کا لباس اتارا، بال ترشوائے اور آدمی کی جون می